کوئی ہنر تو مری چشم اشکبار میں ہے
کہ آج بھی وہ کسی خواب کے خمار میں ہے
کسی بہار کا منظر ہے چشم ویراں میں
کسی گلاب کی خوشبو دل فگار میں ہے
عجب تقاضا ہے مجھ سے جدا نہ ہونے کا
کہ جیسے کون و مکاں میرے اختیار میں ہے
نشان راہ بھی ٹھہرے گا بارشوں کے بعد
ابھی یہ نقش کسی راہ کے غبار میں ہے
افق کے عکس کسی آئنے میں کیا سمٹیں
کہ شوق جلوہ ابھی اپنے انتشار میں ہے
مکاں کی کوئی خبر لا مکاں کو کیسے ہو
سفیر روح ابھی جسم کے حصار میں ہے
کمال ضبط کی ساعت کہیں گزر بھی جا
ستارۂ شب غم میرے انتظار میں ہے
غزل
کوئی ہنر تو مری چشم اشکبار میں ہے
اکرم محمود