کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے
بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں
وہ ستم گر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے
جس کے باعث ہیں یہ چہرے کی لکیریں مغموم
غیرممکن ہے کہ منظر وہ دکھایا جائے
شام خاموش ہے اور چاند نکل آیا ہے
کیوں نہ اک نقش ہی پانی پہ بنایا جائے
زخم ہنستے ہیں تو یہ فصل بہار آتی ہے
ہاں اسی بات پہ پھر زخم لگایا جائے
غزل
کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے
زہرا نگاہ