EN हिंदी
کوئی فکر نہ کوئی غم ہے | شیح شیری
koi fikr na koi gham hai

غزل

کوئی فکر نہ کوئی غم ہے

پنکج سرحدی

;

کوئی فکر نہ کوئی غم ہے
میرے ساتھ مرا ہمدم ہے

اس کے تکلم میں ہے ترنم
اور ترنم میں سرگم ہے

آگ لگا دے آگ بجھا دے
وہ شعلہ ہے وہ شبنم ہے

ابھی کہاں سلجھے ہیں مسائل
ابھی تری زلفوں میں خم ہے

لوگ جسے کہتے ہیں منزل
وہ بھی قید بیش و کم ہے

مل جائے تسکین جہاں پر
پنکجؔ وہ ہی رشک ارم ہے