EN हिंदी
کوفت سے جان لب پہ آئی ہے | شیح شیری
koft se jaan lab pe aai hai

غزل

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

میر تقی میر

;

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وے لب
یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دور
کس سے اس کو کچھ آشنائی ہے

بے ستوں کیا ہے کوہ کن کیسا
عشق کی زور آزمائی ہے

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم
واں وہی ناز و خود نمائی ہے

ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید
رفتۂ یار تھا جب آئی ہے

مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے