کتنی حسین لگتی ہے چہروں کی یہ کتاب
سطروں کے بیچ دیکھیے پھیلا ہوا عذاب
چیخوں کا کرب نغموں کے شعلے ورق ورق
احساس بن رہا ہے جواں درد کی کتاب
میزان دل میں تولیے پھولوں سے ہر امید
لمحوں میں گھل رہا ہے تمناؤں کا شباب
چہروں پہ آج کتنے نقابوں کا بوجھ ہے
زخمی ہے آئینوں کے سمندر میں ہر حجاب
یہ زندگی ہے سایوں کا بکھرا ہوا کفن
دشت سفر ہے خواب کا پھیلا ہوا سراب

غزل
کتنی حسین لگتی ہے چہروں کی یہ کتاب
یوسف اعظمی