EN हिंदी
کتنا دل کش فریب ہستی ہے | شیح شیری
kitna dilkash fareb-e-hasti hai

غزل

کتنا دل کش فریب ہستی ہے

شنکر لال شنکر

;

کتنا دل کش فریب ہستی ہے
زندگی موت کو ترستی ہے

یہ نشیب و فراز ہستی ہے
ہر بلندی کو ایک پستی ہے

دیکھ کر کیا کرو گے دل کی طرف
ایک اجڑی ہوئی سی بستی ہے

موت آ کر جسے اٹھائے گی
زندگی وہ حجاب ہستی ہے

جان دے کر ملے جو اس کی رضا
پھر بھی مہنگی نہیں ہے سستی ہے

رخ گھٹا کا ہے سوئے مے خانہ
دیکھیے اب کہاں برستی ہے

اس کے نغموں سے مست ہے دنیا
کتنا پر کیف ساز ہستی ہے

ہے یہ سودا یقین کا شنکرؔ
بت پرستی بھی حق پرستی ہے