کتابوں نے گو استعاروں میں ہم کو بتائے بہت سے ٹھکانے تمہارے
مگر کچھ وضاحت سے اپنا پتا دو سمجھتے نہیں ہم یہ مبہم اشارے
ہر اک پھول گلشن میں یہ کہہ رہا ہے ہر اک جام مے سے یہ ہم سن رہے ہیں
زمانے کی نظروں میں گھر ہے اسی کا جو ہنس ہنس کے دن زندگی کے گزارے
نہ اہل حرم نے مدد کی ہماری نہ اہل کلیسا نے غم خواریاں کیں
اگر تو بھی طرز تغافل نہ چھوڑے کہاں جائیں پھر ہم مصیبت کے مارے
قدامت پسندوں پہ کیوں ہنس رہے ہو خدا کی قدامت پسندی تو دیکھو
ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں برس سے وہی کہکشاں ہے وہی چاند تارے
مرے اشک خونیں کی گل کاریوں سے زمانے کو رنگیں قبائیں ملی ہیں
جنون محبت کا یہ فیض سمجھوں بیاباں میں بھی ہیں چمن کے نظارے
نہ غم مجھ کو گرداب رنج و بلا کا نہ محتاج ہوں میں کسی ناخدا کا
سفینے کو موجوں کی زد سے بچا کر چلا جا رہا ہوں کنارے کنارے
تری خشمگیں آنکھ کی گردشوں نے زمانے کو زیر و زبر کر دیا ہے
سہاروں پہ کوئی بھروسہ کرے کیا سہارے تو خود ڈھونڈتے ہیں سہارے
اسی روئے روشن کو ہم چاہتے ہیں امیدوں کو تاریک جس نے کیا ہے
اسی ماہ تاباں کو ہم ڈھونڈتے ہیں دکھائے ہیں دن کو ہمیں جس نے تارے
ترے شوق میں جو چلا جا رہا ہے جو رستے کی مشکل سے گھبرا رہا ہے
کبھی اپنی منزل پہ جا ہی رہے گا مگر شرط یہ ہے کہ ہمت نہ ہارے
سنا ہے کہ شاعر ہو اے جوشؔ تم بھی نظر باغ جنت پہ کیوں ہے تمہاری
مسدس میں حالی تو یہ کہہ گئے ہیں جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
غزل
کتابوں نے گو استعاروں میں ہم کو بتائے بہت سے ٹھکانے تمہارے
جوشؔ ملسیانی