کتاب دل کے ورق جو الٹ کے دیکھتا ہے
وہ کائنات کو اوروں کو ہٹ کے دیکھتا ہے
اگر نہیں ہے بچھڑنے کا رنج کچھ بھی اسے
وہ بار بار مجھے کیوں پلٹ کے دیکھتا ہے
ندی بڑھی ہو کہ سوکھی ہر ایک صورت میں
کنارہ اپنے ہی پانی سے ہٹ کے دیکھتا ہے
کسی کو تیرگی پاگل نہ کر سکے جب تک
کہاں چراغ کی لو سے پلٹ کے دیکھتا ہے
نہ ہو سکیں گے کبھی اس کے ذہن و دل روشن
ورق ورق جو کتابوں کو رٹ کے دیکھتا ہے
اسی پہ کھلتی ہیں دنیا کی وسعتیں شاہدؔ
جو اپنی ذات میں ہر پل سمٹ کے دیکھتا ہے

غزل
کتاب دل کے ورق جو الٹ کے دیکھتا ہے
شاہد جمال