کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
مجھے اجل کے بھی آنے کا اعتبار نہیں
جواب نامہ کا قاصد مزار پر لایا
کہ جانتا تھا اسے تاب انتظار نہیں
یہ کہہ کے اٹھ گئی بالیں سے میری شمع سحر
تمام ہو گئی شب اور تجھے قرار نہیں
جو تو ہو پاس تو حور و قصور سب کچھ ہو
جو تو نہیں تو نہیں بلکہ زینہار نہیں
خزاں کے آنے سے پہلے ہی تھا مجھے معلوم
کہ رنگ و بوئے چمن کا کچھ اعتبار نہیں
غزل کہی ہے کہ موتی پروئے ہیں اے نظمؔ
وہ کون شعر ہے جو در شاہوار نہیں
غزل
کسی سے بس کہ امید کشود کار نہیں
نظم طبا طبائی