EN हिंदी
کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی | شیح شیری
kisi ranjish ko hawa do ki main zinda hun abhi

غزل

کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

سدرشن فاخر

;

کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
مجھ کو احساس دلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

میرے رکتے ہی مری سانسیں بھی رک جائیں گی
فاصلے اور بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

زہر پینے کی تو عادت تھی زمانے والو
اب کوئی اور دوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی

چلتی راہوں میں یوں ہی آنکھ لگی ہے فاکرؔ
بھیڑ لوگوں کی ہٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی