کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
مجھ کو احساس دلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
میرے رکتے ہی مری سانسیں بھی رک جائیں گی
فاصلے اور بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
زہر پینے کی تو عادت تھی زمانے والو
اب کوئی اور دوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
چلتی راہوں میں یوں ہی آنکھ لگی ہے فاکرؔ
بھیڑ لوگوں کی ہٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
غزل
کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
سدرشن فاخر