کسی نے دور سے دیکھا کوئی قریب آیا
امیر شہر میں جب بھی کوئی غریب آیا
ہوا میں زہر گھلا پانیوں میں آگ لگی
تمہارے بعد زمانہ بڑا عجیب آیا
بریدہ دست برہنہ بدن شکستہ پا
ترے دیار میں کیا کیا نہ بد نصیب آیا
کسی کو اب نہ ستائے گی مرگ نامعلوم
چراغ دار جلے موسم صلیب آیا
برس مہینوں میں ہفتے دنوں میں ڈھلنے لگے
جو رامؔ دور تھا وہ وقت اب قریب آیا

غزل
کسی نے دور سے دیکھا کوئی قریب آیا
رام ریاض