کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکایتیں ہیں
ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ہیں وضاحتیں ہیں
قدم قدم پر بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے
ہواؤں جیسی محبتیں ہیں صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں
کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے
کوئی مری چاہتوں کا دشمن کسی کو درکار چاہتیں ہیں
تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک
خلش ہے سینے میں پہلے دن سی لہو میں ویسی ہی وحشتیں ہیں
مری محبت کے رازداں نے یہ کہہ کے لوٹا دیا مرا خط
کہ بھیگی بھیگی سی آنسوؤں میں تمام گنجلک عبارتیں ہیں
میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کر بکھر گیا ہوں
مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں
غزل
کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکایتیں ہیں
اعتبار ساجد