کسی کی چاہ میں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
تجھے خبر نہیں مفہوم عاشقی کیا ہے
تپش میں دھوپ کے ہوتی ہے قدر سائے کی
نہ ہو جو موت کا خطرہ تو زندگی کیا ہے
نہیں ہے فرق اندھیرے میں اور اجالے میں
نظر نہ آئے جہاں تو وہ روشنی کیا ہے
ہیں یوں تو سیکڑوں مخلوق بزم ہستی میں
نہیں ہے دل میں محبت تو آدمی کیا ہے
رہے جو دل سے لپٹ کر وہ غم ہی بہتر ہے
جو چند لمحوں کی مہماں ہے وہ خوشی کیا ہے
ہے آدمی تو اٹھانا ہے بار ہستی کا
ہے آس جینے کی ہونٹوں پہ کپکپی کیا ہے
ترے لیے تو جھکانا بھی سر عبادت ہے
اگر جھکا نہ سکے دل تو بندگی کیا ہے
تمہارے جلوۂ اقدس کا ایک پرتو ہے
یہ نجم اور یہ زہرہ یہ مشتری کیا ہے
وہ دل لگی ہے اگر گدگدی سی آ جائے
جلا دے دل کو جو اصغرؔ وہ دل لگی کیا ہے
غزل
کسی کی چاہ میں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
اصغر ویلوری