کسی کے فیض قرب سے حیات اب سنور گئی
نفس نفس مہک اٹھا نظر نظر نکھر گئی
نگاہ ناز جب اٹھی عجیب کام کر گئی
جو رنگ رخ اڑا دیا تو دل میں رنگ بھر گئی
مری سمجھ میں آ گیا ہر ایک راز زندگی
جو دل پہ چوٹ پڑ گئی تو دور تک نظر گئی
اب آس ٹوٹ کر مجھے سکوں نصیب ہو گیا
جو شام انتظار تھی وہ شام تو گزر گئی
کلی دل تباہ کی کھلی نہ چشتیٔؔ حزیں
خزاں بھی آ کے جا چکی بہار بھی گزر گئی
غزل
کسی کے فیض قرب سے حیات اب سنور گئی
عنوان چشتی