کسی کا ایک ہے دشمن تو دوست دار ہے ایک
ہمارا ہجر عدو ایک وصل یار ہے ایک
جہاں میں شادی و غم سے نہیں ہے دور کوئی
خزاں عدو ہے مرا ایک اور بہار ہے ایک
خوشی نصیب نہیں ہم کو تابہ حشر کوئی
ہزار رنج ہیں ایک اور یہ دل فگار ہے ایک
بسان مرگ و حیات اہل دل کو عالم میں
ہمیشہ ایک ہے دل جس پہ غم سوار ہے ایک
ملا ہے حسن خداداد جن کو عالم میں
فدا جو ایک ہے ان پر تو جاں نثار ہے ایک
رہ وفا میں یہ ہے حال عاشقوں کا مدام
خراب ایک ہے شوریدہ سر تو خار ہے ایک
ملوگے ہم سے جو مسکیںؔ دوئی کو دور کرو
شمار ایک ہے گر دم ہے دو پہ تار ہے ایک

غزل
کسی کا ایک ہے دشمن تو دوست دار ہے ایک
مسکین شاہ