EN हिंदी
کسی گرداب کی پھینکی پڑی ہے | شیح شیری
kisi girdab ki phenki paDi hai

غزل

کسی گرداب کی پھینکی پڑی ہے

لیاقت جعفری

;

کسی گرداب کی پھینکی پڑی ہے
لب ساحل جو اک کشتی پڑی ہے

حقیقت میں وہی سیدھی پڑی ہے
مجھے اک چال جو الٹی پڑی ہے

سفر الجھا دئے ہیں اس نے سارے
مرے پیروں میں جو تیزی پڑی ہے

وہ ہنگامہ گزر جاتا ادھر سے
مگر رستے میں خاموشی پڑی ہے

مرے کانوں کی زد پر ہیں مناظر
مری آنکھوں میں سرگوشی پڑی ہے

ہوا ہے قتل بے داری کا جب سے
یہ بستی رات دن سوئی پڑی ہے

یہ مصرعہ میں ادھورا چھوڑتا ہوں
مرے بستے میں اک تختی پڑی ہے

پتنگ کٹنے کا باعث اور ہے کچھ
اگرچہ ڈور بھی الجھی پڑی ہے

ذرا کوئل کا پنجرہ کھل گیا تھا
ابھی تک خوف سے سہمی پڑی ہے

مکمل ایک دنیا اور بھی ہے
جو اک دنیا کی ان دیکھی پڑی ہے

بڑی بنجر تھی یہ کھیتی لیاقتؔ
مگر کچھ روز سے سینچی پڑی ہے