EN हिंदी
کسی بھی روشن خیال سے آشنا نہیں ہے | شیح شیری
kisi bhi raushan KHayal se aashna nahin hai

غزل

کسی بھی روشن خیال سے آشنا نہیں ہے

ندیم فاضلی

;

کسی بھی روشن خیال سے آشنا نہیں ہے
جو آپ اپنے جمال سے آشنا نہیں ہے

اسے خیالوں میں جیسا چاہوں تراش لوں گا
ابھی نظر خد و خال سے آشنا نہیں ہے

ابھی تو دعویٰ ہے اس کو مشکل پسندیوں کا
ابھی وہ کار محال سے آشنا نہیں ہے

ابھی تو مٹی مہک اٹھی ہے نمی کو پا کر
ابھی وہ پانی کی چال سے آشنا نہیں ہے

مزاج حاوی رہا ہمیشہ ضرورتوں پر
فقیر حرف سوال سے آشنا نہیں ہے

غزل برائے غزل ہے تیری ندیمؔ ابھی تو
غزل کے حسن و جمال سے آشنا نہیں ہے