کسی بنجر تخیل پر کسی بے آب رشتے میں
ذرا ٹھہرے تو پتھر بن گئے احباب رستے میں
سرابوں کی گلی ہے یا ترے گاؤں کا کونا ہے
لگا ہے خاک پر شیشے کا اک تالاب رستے میں
ابھی کچھ دیر پہلے پاؤں کے نیچے نہ تھے بادل
ابھی پھیلا گئی ہیں تیری آنکھیں خواب رستے میں
مری تیاریاں میرے سفر میں ہو گئیں حائل
کبھی تعویذ بازو پر کبھی محراب رستے میں
سمندر اپنے مرکز میں کھنچا ہے میری آنکھوں کا
سو اب ممکن نہیں ہے روکنا سیلاب رستے میں
میں کافی دیر پہلے جس کو گھر میں چھوڑ آیا تھا
کھڑا ہے منہ پھلائے اب وہی مہتاب رستے میں
سفر آساں نہیں ہوتا کمر پہ لاد کر دنیا
چلے تو رفتہ رفتہ رہ گیا اسباب رستے میں
ہم ایسے راہ رو تھے کوئی بھی منزل نہ ہو جن کی
سفینے آرزو کے ہو گئے غرقاب رستے میں
غزل
کسی بنجر تخیل پر کسی بے آب رشتے میں
شہنواز زیدی