کسے اپنا بنائیں کوئی اس قابل نہیں ملتا
یہاں پتھر بہت ملتے ہیں لیکن دل نہیں ملتا
محبت کا صلہ ایثار کا حاصل نہیں ملتا
وہ نظریں بارہا ملتی ہیں لیکن دل نہیں ملتا
تمہارا روٹھنا تمہید تھی افسانۂ غم کی
زمانہ ہو گیا ہم سے مزاج دل نہیں ملتا
جہاں تک دیکھتا ہوں میں جہاں تک میں نے سمجھا ہے
کوئی تیرے سوا تعریف کے قابل نہیں ملتا
حرم کی منزلیں ہوں یا صنم خانے کی راہیں ہوں
خدا ملتا نہیں جب تک مقام دل نہیں ملتا
مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر چین پاتے ہیں
وہ موجیں سر پٹکتی ہیں جنہیں ساحل نہیں ملتا
ہم اپنا غم لیے بیٹھے ہیں اس بزم طرب میں بھی
کسی نغمے سے اب مخمورؔ ساز دل نہیں ملتا
غزل
کسے اپنا بنائیں کوئی اس قابل نہیں ملتا
مخمور دہلوی