کس طرح واقف ہوں حال عاشق جاں باز سے
ان کو فرصت ہی نہیں ہے کاروبار ناز سے
میرے درد دل سے گویا آشنا ہیں چوب و تار
اپنے نالے سن رہا ہوں پردہ ہائے ساز سے
ذرہ ذرہ ہے یہاں اک کتبۂ سر الست
آپ ہی واقف نہیں ہیں رسم خط راز سے
دل گئے ایماں گئے عقلیں گئیں جانیں گئیں
تم نے کیا کیا کر دکھایا اک نگاہ ناز سے
آہ! کل تک وہ نوازش! آج اتنی بے رخی
کچھ تو نسبت چاہئے انجام کو آغاز سے
غزل
کس طرح واقف ہوں حال عاشق جاں باز سے
غلام بھیک نیرنگ