کس رقص جان و تن میں مرا دل نہیں رہا
گو میں کسی جلوس میں شامل نہیں رہا
ہر چند تیری روح کا محرم رہا ہوں میں
لیکن ترے بدن سے بھی غافل نہیں رہا
تجھ سے کوئی گلہ ہے نہ تیری وفا سے ہے
میں ہی ترے خیال کے قابل نہیں رہا
باہر چہک رہی ہو کہ اندر مہک رہی
دل اب کسی بہار کا قائل نہیں رہا
یارو سفینۂ غم دل کا بنے گا کیا
لگتا ہے اب کہیں کوئی ساحل نہیں رہا
غزل
کس رقص جان و تن میں مرا دل نہیں رہا
احمد مشتاق