کس ناز سے واہ ہم کو مارا
کی ترچھی نگاہ ہم کو مارا
سو پیچ میں لا کے آخر کار
اے زلف سیاہ ہم کو مارا
خواہندہ ترے تھے اے پری ہم
کیوں خواہ نہ خواہ ہم کو مارا
کعبے کو جو ہم چلے بتوں نے
کہہ کر گمراہ ہم کو مارا
شکوہ ہمیں کچھ نہیں فلک سے
تو نے اے ماہ ہم کو مارا
چاہ زقن صنم دکھا کر
تو نے اے چاہ ہم کو مارا
ایسے ہیں ضعیف مر گئے ہم
جس نے پر کاہ ہم کو مارا
اس کی زلف دراز نے شب
قصۂ کوتاہ ہم کو مارا
شمشیر نگہ سے اس نے بے موت
خالق ہے گواہ ہم کو مارا
بوسہ کی طلب میں اس نے گویاؔ
نا کردہ گناہ ہم کو مارا
غزل
کس ناز سے واہ ہم کو مارا
گویا فقیر محمد