کس کو ہم سفر سمجھیں جو بھی ساتھ چلتے ہیں
آشنا سے لگتے ہیں اجنبی نکلتے ہیں
اے مری شریک غم کاش تو سمجھ سکتی
کتنے ان بہے آنسو قہقہوں میں ڈھلتے ہیں
رات کی خموشی میں جب کوئی نہیں ہوتا
دل سے بیتی یادوں کے قافلے نکلتے ہیں
تہ بہ تہ اندھیروں تک روشنی تو پھیلے گی
ایک رات کی ضد میں سو چراغ چلتے ہیں
منزلوں کے دھوکے میں ساتھیو نہ رک جانا
منزلوں سے آگے بھی راستے نکلتے ہیں

غزل
کس کو ہم سفر سمجھیں جو بھی ساتھ چلتے ہیں
اندر موہن مہتا کیف