کس خواب کا اثر ہے جو اب تک نظر میں ہے
منزل کی ایک شبیہ غبار سفر میں ہے
سمجھو کہ ایک پرتو منظر نہیں تمام
ہے تیرگی وہ راز جو تاب گہر میں ہے
دریا کی وسعتوں سے جو خائف رہے وہ لوگ
سمجھے نہیں کہ ایک کنارہ بھنور میں ہے
ہم منزل یقیں پہ نہ ٹھہرے یہ جان کر
خلق خدا کے ساتھ خدا بھی سفر میں ہے
رقصاں مری طلب میں ہے رقاص کائنات
میری تلاش ہے جو دل رہ گزر میں ہے
حیرت وفور شوق میں تکمیل کی طرف
اک عکس آئنوں سے گریزاں سفر میں ہے
غزل
کس خواب کا اثر ہے جو اب تک نظر میں ہے
مظفر ممتاز