EN हिंदी
کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے | شیح شیری
kis jhuTpuTe ke rang ujalon mein aa gae

غزل

کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے

احمد مشتاق

;

کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے
ٹکڑے شفق کے دھوپ سے گالوں میں آ گئے

افسردگی کی لے بھی ترے قہقہوں میں تھی
پت جھڑ کے سر بہار کے جھالوں میں آ گئے

اڑ کر کہاں کہاں سے پرندوں کے قافلے
نادیدہ پانیوں کے خیالوں میں آ گئے

حسن تمام تھے تو کوئی دیکھتا نہ تھا
تم درد بن کے دیکھنے والوں میں آ گئے

کانٹے سمجھ کے گھاس پہ چلتا رہا ہوں میں
قطرے تمام اوس کے چھالوں میں آ گئے

کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی
کچھ خواب تھے جو میرے خیالوں میں آ گئے