کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے
ٹکڑے شفق کے دھوپ سے گالوں میں آ گئے
افسردگی کی لے بھی ترے قہقہوں میں تھی
پت جھڑ کے سر بہار کے جھالوں میں آ گئے
اڑ کر کہاں کہاں سے پرندوں کے قافلے
نادیدہ پانیوں کے خیالوں میں آ گئے
حسن تمام تھے تو کوئی دیکھتا نہ تھا
تم درد بن کے دیکھنے والوں میں آ گئے
کانٹے سمجھ کے گھاس پہ چلتا رہا ہوں میں
قطرے تمام اوس کے چھالوں میں آ گئے
کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی
کچھ خواب تھے جو میرے خیالوں میں آ گئے
غزل
کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے
احمد مشتاق