کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں
یہ سنگ ریزے پلک سے اٹھانے پڑتے ہیں
بہت سے درد تو ہم بانٹ بھی نہیں سکتے
بہت سے بوجھ اکیلے اٹھانے پڑتے ہیں
یہ بات اس سے پتا کر جو عشق جانتا ہو
پلوں کی راہ میں کتنے زمانہ پڑتے ہیں
ہر ایک پیڑ کا سایا نہیں ملا کرتا
بلا غرض بھی تو پودے لگانے پڑتے ہیں
کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے
یہ کپڑے کمرے کے اندر سکھانے پڑتے ہیں
کہاں سے لاؤ گے تم اس قدر جبین نیاز
قدم قدم پہ یہاں آستانہ پڑتے ہیں
غزل
کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں
معین شاداب