EN हिंदी
کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں | شیح شیری
kis ehtiyat se sapne sajaane paDte hain

غزل

کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں

معین شاداب

;

کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں
یہ سنگ ریزے پلک سے اٹھانے پڑتے ہیں

بہت سے درد تو ہم بانٹ بھی نہیں سکتے
بہت سے بوجھ اکیلے اٹھانے پڑتے ہیں

یہ بات اس سے پتا کر جو عشق جانتا ہو
پلوں کی راہ میں کتنے زمانہ پڑتے ہیں

ہر ایک پیڑ کا سایا نہیں ملا کرتا
بلا غرض بھی تو پودے لگانے پڑتے ہیں

کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے
یہ کپڑے کمرے کے اندر سکھانے پڑتے ہیں

کہاں سے لاؤ گے تم اس قدر جبین نیاز
قدم قدم پہ یہاں آستانہ پڑتے ہیں