کس دن برنگ زخم نیا گل کھلا نہیں
کس شب بہ فیض اشک چراغاں ہوا نہیں
اک سہم ہے کہ ہر کہیں رہتا ہے ساتھ ساتھ
اک وہم ہے کہ آج بھی دل سے گیا نہیں
اے دوست راہ زیست میں چل احتیاط سے
گرتے ہوئے کو کوئی یہاں تھامتا نہیں
گو ذہن سے شبیہ تری محو ہو گئی
لیکن ترے خیال کا سورج بجھا نہیں
من کا تمام ذوق سفر گھٹ کے رہ گیا
تن کے سمندروں میں کہیں راستہ نہیں
عالؔی ورود شعر میں وقفہ بجا مگر
اب کے تو ایک عمر ہوئی کچھ کہا نہیں
غزل
کس دن برنگ زخم نیا گل کھلا نہیں
جلیل عالیؔ