EN हिंदी
کرن میں پھر سے بدلنے لگا خیال اس کا | شیح شیری
kiran mein phir se badalne laga KHayal us ka

غزل

کرن میں پھر سے بدلنے لگا خیال اس کا

بیدار سرمدی

;

کرن میں پھر سے بدلنے لگا خیال اس کا
اتر رہا ہے نئے چاند پر جمال اس کا

گیا ہے شاخ سے وہ اس لیے کہ شاخ رہے
ہوا تو بیج کی صورت ہوا زوال اس کا

جیوں گا میں بھی ہمیشہ کہ جاوداں ہے وہ
میں جی رہا ہوں کہ یہ سال بھی ہے سال اس کا

وہ لے گیا ہے مری آنکھ اپنی بستی میں
کہ میرے ساتھ رہے رابطہ بحال اس کا

میں صرف پانی کی چھاگل سہی مگر بیدارؔ
ہوا گلاب مرے دم سے بال بال اس کا