EN हिंदी
کرن کرن یہ کسی دیدۂ حسد میں ہے | شیح شیری
kiran kiran ye kisi dida-e-hasad mein hai

غزل

کرن کرن یہ کسی دیدۂ حسد میں ہے

نبیل احمد نبیل

;

کرن کرن یہ کسی دیدۂ حسد میں ہے
ہر اک چراغ ہمارا دھویں کی زد میں ہے

جسے نکالا ہے ہندسوں سے زائچہ گر نے
بقا ہماری اسی پانچ کے عدد میں ہے

ہر ایک شخص کی قامت کو ناپ اور بتا
مرے علاوہ یہاں کون اپنے قد میں ہے

گھروں کے صحن کچھ ایسے سکڑ سمٹ گئے ہیں
ہر ایک شخص مکیں جس طرح لحد میں ہے

لگے ہیں شاخوں پہ جس دن سے پھول پات نئے
ہر ایک پیڑ حویلی کا چشم بد میں ہے

نبیلؔ ایسے ادھورے ہیں روز و شب جیسے
مرا ازل کسی اندیشۂ ابد میں ہے