خواہش و خواب کے آگے بھی کہیں جانا ہے
عشق کے باب سے آگے بھی کہیں جانا ہے
کیوں نہیں چھوڑتی آخر مجھے دنیا داری
مال و اسباب سے آگے بھی کہیں جانا ہے
دینے والے تو مجھے نیند نہ دے خواب تو دے
مجھ کو مہتاب سے آگے بھی کہیں جانا ہے
جانے کیوں روک رہی ہے مجھے اشکوں کی قطار
چشم پر آب سے آگے بھی کہیں جانا ہے
کیوں لپٹتا ہے مرے ساتھ یہ دریا آخر
مجھ کو گرداب سے آگے بھی کہیں جانا ہے
غزل
خواہش و خواب کے آگے بھی کہیں جانا ہے
عظیم حیدر سید