خواہش جادۂ راحت سے نکلتا کیسے
دل مرا کوئے ملامت سے نکلتا کیسے
سایۂ وہم و گماں چار طرف پھیلا ہے
میں ابھی کرب و اذیت سے نکلتا کیسے
میری رسوائی اگر ساتھ نہ دیتی میرا
یوں سر بزم میں عزت سے نکلتا کیسے
میری نظریں جو نہ پڑتیں تو وہاں پچھلی شب
اک ستارا سا تری چھت سے نکلتا کیسے
میں کہ برباد ہوا دید کی خاطر جس کی
وہ مرے دیدۂ حیرت سے نکلتا کیسے
اس کے دم ہی سے تو قائم ہے مرا جاہ و جلال
وہ مرے دل کی حکومت سے نکلتا کیسے
جاگ بیٹھا ہوں تو دل ڈوبا نہیں ہے اخترؔ
سویا رہتا تو مصیبت سے نکلتا کیسے
غزل
خواہش جادۂ راحت سے نکلتا کیسے
اختر شمار