خواب میں منظر رہ جاتا ہے
تکیے پر سر رہ جاتا ہے
آ پڑتی ہے جھیل آنکھوں میں
ہاتھ میں پتھر رہ جاتا ہے
روز کسی حیرت کا دھبہ
آئینے پر رہ جاتا ہے
دل میں بسنے والا اک دن
جیب کے اندر رہ جاتا ہے
ندیا پر ملنے کا وعدہ
میز کے اوپر رہ جاتا ہے
سال گزر جاتا ہے سارا
اور کلینڈر رہ جاتا ہے
آنگن کی خواہش میں کوئی
بام کے اوپر رہ جاتا ہے
لگ جاتی ہے ناؤ اس پار
اور سمندر رہ جاتا ہے
رخصت ہوتے ہوتے کوئی
دروازے پر رہ جاتا ہے
غزل
خواب میں منظر رہ جاتا ہے
سرفراز زاہد