خواب آنکھوں کی گلی چھوڑ کے جانے نکلے
ہم ادھر نیند کی دیوار گرانے نکلے
دھول رستے کا مقدر ہے تو رستہ کیا ہے
بس یہی بات زمانے کو بتانے نکلے
جب پہاڑوں سے ملی داد ہنر کی اپنے
داستاں ہم بھی سمندر کو سنانے نکلے
رنگ سے رنگ جدا ہونے کا منظر دیکھا
تیرگی اور شفق صرف بہانے نکلے
جب سمندر پہ چلے ہم تو یہ صحرا چپ تھے
اب پہاڑی پہ کھڑے ہیں تو بلانے نکلے
آسماں جس کی زمیں ہے وہ پرندہ ہوں میں
جانے کیوں لوگ یہاں دام بچھانے نکلے
کوئی چہرہ نہ دے آواز کسی لو سے متینؔ
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے نکلے
غزل
خواب آنکھوں کی گلی چھوڑ کے جانے نکلے
غیاث متین