EN हिंदी
خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں | شیح شیری
KHuban jo pahante hain nipaT tang choliyan

غزل

خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں

تاباں عبد الحی

;

خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں
ان کی سجوں کو دیکھ مریں کیوں نہ لولیاں

ہونٹوں میں جم رہی ہے ترے آج کیوں دھری
بھیجی تھیں کس نے رات کو پانوں کی ڈھولیاں

جس دن سے انکھڑیاں تری اس کو نظر پڑیں
بادام نے خجل ہو پھر آنکھیں نہ کھولیاں

تارے نہیں فلک پہ تمہارے نثار کو
لایا ہے موتیوں سے یہ بھر بھر کے جھولیاں

سنبل کو پیچ و تاب عجب طرح کی ہوئی
زلفیں جب ان نے جا کے گلستاں میں کھولیاں

گلشن میں بحثنے کو تمہارے دہن کے ساتھ
کھولا تھا منہ کو کلیوں نے پر کچھ نہ بولیاں

تاباں قفس میں آج ہیں وے بلبلیں خموش
کرتی تھیں کل جو باغ میں گل سے کلولیاں