EN हिंदी
خشک ہو جائے نہ جھرنے والا | شیح شیری
KHushk ho jae na jharne wala

غزل

خشک ہو جائے نہ جھرنے والا

پریم کمار نظر

;

خشک ہو جائے نہ جھرنے والا
اب کے تالاب ہے بھرنے والا

جسم پر نام نہ لکھنا اپنا
یہ ہے مٹی میں اترنے والا

مار کر دیکھ لیا ہے اس کو
ہم سے مرتا نہیں مرنے والا

اب تو آہٹ بھی نہیں آتی ہے
یوں گزرتا ہے گزرنے والا

اس لیے جھیل میں ہلچل ہے بہت
اک جزیرہ ہے ابھرنے والا

ہو رہا ہے پس دیوار بھی کچھ
جانے کیا کرتا ہے کرنے والا

آپ ہی آپ چلاتا ہے ہوا
آپ ہی آپ بکھرنے والا

کشتیاں پار لگیں یا نہ لگیں
اب یہ دریا ہے اترنے والا

کون جائے گا سر کوہ ندا
شہر کا شہر ہے ڈرنے والا