خوشی میں دل کے داغ کو جلا جلا کے پی گیا
ہوس کی تیز آنچ کو بجھا بجھا کے پی گیا
نظر کے ساگروں میں جو بھری تھی تو نے ارغواں
تری حسین آنکھ سے چرا چرا کے پی گیا
نصیحتوں کے درمیاں جو تک رہی تھی جام کو
اسی نگاہ بد سے میں بچا بچا کے پی گیا
ملی جو تیرے ہاتھ سے تو ہو گیا نشہ دو چند
رقیب رو سیاہ کو دکھا دکھا کے پی گیا
قلیل بھی ملی کبھی تو کی اسی پہ اکتفا
بڑھی ہوئی طلب کو میں دبا دبا کے پی گیا
جھکی جھکی نگاہ میں ہزار کیف و مستیاں
اسی نگاہ ناز کو اٹھا اٹھا کے پی گیا
فلک پہ کالی بدلیاں قریب روح دل کشی
پیالے سے پیالے کو ملا ملا کے پی گیا

غزل
خوشی میں دل کے داغ کو جلا جلا کے پی گیا
سرتاج عالم عابدی