خوشی کی ملی یہ سزا رفتہ رفتہ
تعارف غموں سے ہوا رفتہ رفتہ
تھی چہرے کی رنگت تو نظروں کے آگے
چلا رنگ دل کا پتہ رفتہ رفتہ
بھلائی کئے جا یقیں رب پہ رکھ کر
وہ دیتا ہے سب کو صلہ رفتہ رفتہ
سنی بھوکے بچے نے جب ماں کی لوری
تو رو رو کے وہ سو گیا رفتہ رفتہ
ترے بن بھی کٹ جائے گی عمر لیکن
چھڑا اپنا دامن ذرا رفتہ رفتہ
نظر جو ملی دل ہوا راکھ جل کر
دھواں پھر اسی سے اٹھا رفتہ رفتہ
چمن میں کھلیں ہنستے ہنستے جو کلیاں
تو خوشبو سے مہکی فضا رفتہ رفتہ
نہ گھبراؤ موناؔ پریشانیوں سے
اثر لائے گی ہر دعا رفتہ رفتہ
غزل
خوشی کی ملی یہ سزا رفتہ رفتہ
ایلزبتھ کورین مونا