خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے
وہ آتش سیال جو سینے میں بھری ہے
بادہ طلبی شوق کی دریوزہ گری ہے
صد شکر کہ تقدیر ہی یاں تشنہ لبی ہے
غنچوں کے چٹکنے کا سماں دل میں ابھی ہے
ملنے میں جو اٹھ اٹھ کے نظر ان کی جھکی ہے
اب ضبط سے کہہ دے کہ یہ رخصت کی گھڑی ہے
اے وحشت غم دیر سے کیا سوچ رہی ہے
معصوم ہے یاد ان کی بھٹک جائے نہ رستہ
خوں گشتہ تمناؤں کی کیوں بھیڑ لگی ہے
یادوں سے کہو سولہ سنگھار آج کرائیں
آئینہ بہ کف حسرت دیدار کھڑی ہے
لب سی لیے اندیشۂ دشنام جہاں سے
اب اپنی خموشی ہی اک افسانہ بنی ہے
ٹھہری ہے تو اک چہرے پہ ٹھہری رہی برسوں
بھٹکی ہے تو پھر آنکھ بھٹکتی ہی رہی ہے
غزل
خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے
وحید اختر