EN हिंदी
خوشبو ہے اور دھیما سا دکھ پھیلا ہے | شیح شیری
KHushbu hai aur dhima sa dukh phaila hai

غزل

خوشبو ہے اور دھیما سا دکھ پھیلا ہے

فاطمہ حسن

;

خوشبو ہے اور دھیما سا دکھ پھیلا ہے
کون گیا ہے اب تک لان اکیلا ہے

کیوں آہٹ پر چونکوں میں کس کو دیکھوں
بے دستک ہی آیا جب وہ آیا ہے

کھلی کتابیں سامنے رکھے بیٹھی ہوں
دھندلے دھندلے لفظوں میں اک چہرہ ہے

رات دریچے تک آ کر رک جاتی ہے
بند آنکھوں میں اس کا چہرہ رہتا ہے

آوازوں سے خالی کرنیں پھیلی ہیں
خاموشی میں چاند بھی تنہا جلتا ہے

جانے کون سے رستے پہ کھو جائے وہ
شہر میں بھی آسیبوں کا ڈر رہتا ہے