خوشا وہ باغ مہکتی ہو جس میں بو تیری
خوشا وہ دشت کہ ہو جس میں جستجو تیری
خموش ہے مگر اک عالم تکلم ہے
لبوں پہ غنچہ کے گویا ہے گفتگو تیری
جگر بھی چاک ہوا دل بھی پارہ پارہ ہوا
لگی ہوئی ہے مگر دل سے آرزو تیری
مقابل رخ زیبا نہ ہونا اے گل تر
کہیں نہ خاک میں مل جائے آبرو تیری
اسیر صحن گلستاں نہیں دل آرائی
شمیم لطف دل افزا ہے کو بہ کو تیری
طریق اہل نظر میں ہے منع یکسوئی
ز بسکہ جلوہ فروزی ہے چار سو تیری
ہنوز دشت ختن نافہ زار عالم ہے
کبھی کھلی تھی ادھر زلف مشک بو تیری
فرشتۂ اجل آئے پری کے قالب میں
بوقت مرگ جو صورت ہو روبرو تیری
امید لطف پہ حسرتؔ ہے باغ رضواں میں
سنا ہے جب سے کہ لطف و کرم ہے خو تیری

غزل
خوشا وہ باغ مہکتی ہو جس میں بو تیری
حسرت شروانی