خمار تشنہ لبی میں یہ کام کر آئے
ہم اپنی پیاس کو دریا کے نام کر آئے
تمہارے لمس کا صندل مہکنے والا ہے
خبر یہ ہم بھی درختوں میں عام کر آئے
اسے گلے سے لگانا تو خواب ٹھہرا ہے
یہی بہت ہے جو اس سے کلام کر آئے
تمہاری یاد کی چھاؤں میں دن گزارا ہے
تمہارے ذکر کے سائے میں شام کر آئے
کچھ اور ہو نہ سکا ہم سے اس جہاں میں مگر
یہی بہت ہے محبت میں نام کر آئے

غزل
خمار تشنہ لبی میں یہ کام کر آئے
نعمان فاروق