کھلتا نہیں کہ ہم میں خزاں دیدہ کون ہے
آسودگی کے باب میں رنجیدہ کون ہے
آمادگی کو وصل سے مشروط مت سمجھ
یہ دیکھ اس سوال پہ سنجیدہ کون ہے
دیکھوں جو آئینہ تو غنودہ دکھائی دوں
میں خواب میں نہیں تو یہ خوابیدہ کون ہے
انبوہ اہل زخم تو کب کا گزر چکا
اب رہ گزر پہ خاک میں غلطیدہ کون ہے
اے کرب نا رسائی کبھی یہ تو غور کر
میرے سوا یہاں ترا گرویدہ کون ہے
ہر شخص دوسرے کی ملامت کا ہے شکار
آخر یہاں کسی کا پسندیدہ کون ہے
تو عزم ترک عشق پہ قائم تو ہے مگر
تجھ میں یہ چند روز سے لرزیدہ کون ہے
غزل
کھلتا نہیں کہ ہم میں خزاں دیدہ کون ہے
عزم بہزاد