کھلے جو آنکھ کبھی دیدنی یہ منظر ہیں
سمندروں کے کناروں پہ ریت کے گھر ہیں
نہ کوئی کھڑکی نہ دروازہ واپسی کے لیے
مکان خواب میں جانے کے سیکڑوں در ہیں
گلاب ٹہنی سے ٹوٹا زمین پر نہ گرا
کرشمے تیز ہوا کے سمجھ سے باہر ہیں
کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا سراب سب کا ہے
سبھی ہیں پیاس کے مارے سبھی برابر ہیں
حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں
غزل
کھلے جو آنکھ کبھی دیدنی یہ منظر ہیں
شہریار