خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے
کہ اپنا سب سفر ہی رات کا ہے
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے
انا کیا عجز کو گرداب سمجھو
بڑا گہرا سمندر ذات کا ہے
خدا اشعار رسمی سے بچائے
یہ قتل عام سچی بات کا ہے
تپش کتنی ہے ماں کے آنسوؤں میں
یہ پانی کون سی برسات کا ہے
مجھے بہتر ہے کچی قبر اپنی
کسی گنبد سے جو خیرات کا ہے
غزل
خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے
سید ضمیر جعفری