خودی کم زندگی میں غم بہت ہیں
یہی ہے امتحاں تو ہم بہت ہیں
ہمارا درد چہرے سے عیاں ہے
ہمارے درد کے محرم بہت ہیں
ہوئی ہموار کس سے راہ ہستی
ابھی تک اس میں پیچ و خم بہت ہیں
ضروری تو نہیں اک فصل گل ہو
جنوں کے اور بھی موسم بہت ہیں
بہت ہیں رونے والے گلستاں پر
شریک گریۂ شبنم بہت ہیں
مری پلکوں پہ روشن ہیں جو آنسو
مجھے اے دیدۂ پر نم بہت ہیں
نہیں اک عالم شام جدائی
نظر میں اور بھی عالم بہت ہیں
غزل
خودی کم زندگی میں غم بہت ہیں
کرامت بخاری