خدایا کاش تجھی کو گواہ کر لیتے
نگاہ خلق سے بچ کر گناہ کر لیتے
حیات خود ہی مرے درد کی پاسباں ہوتی
عروس مرگ سے اک دن جو چاہ کر لیتے
فلک نہ رہتا نہ روئے زمیں کی رنگینی
تمہارے جور و ستم پر جو آہ کر لیتے
نہ کرتے جبر کسی پر بھی لوگ پھر شاید
جو اختیار پہ اپنے نگاہ کر لیتے
گداگری کے تو الزام سے بچے رہتے
ہم اپنے سر پہ اگر کج کلاہ کر لیتے
ہماری فکر کا تھوڑا سا تو صلہ ملتا
جو اہل بزم ہی کچھ واہ واہ کر لیتے
نباہ لیتے زمانے سے ہم بھی مر کھپ کر
جو آپ عصرؔ کے دل میں نہ راہ کر لیتے

غزل
خدایا کاش تجھی کو گواہ کر لیتے
محمد نقی رضوی عصر