خدایا عشق میں اچھی یہ شرط امتحاں رکھ دی
لگا کر مہر خاموشی مرے منہ میں زباں رکھ دی
جو پوچھو دل سے شے تم نے کہاں اے مہرباں رکھ دی
بڑی نخوت سے کہتے ہیں جہاں چاہی وہاں رکھ دی
کسی کے جور بے حد پر بھی جب خاموش رہنا تھا
تو پھر کیوں اے خدا تو نے مرے منہ میں زباں رکھ دی
محبت کا نشاں تک بھی زمانے میں نہیں ملتا
اٹھا کر چیز یہ اے آسماں تو نے کہاں رکھ دی
کہاں تک حادثات برق و باراں سے رہوں خائف
خدا کا نام لے کر میں نے طرح آشیاں رکھ دی

غزل
خدایا عشق میں اچھی یہ شرط امتحاں رکھ دی
ساحر سیالکوٹی