EN हिंदी
خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے | شیح شیری
KHud se niklun to alag ek saman hota hai

غزل

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے

صغیر ملال

;

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے
اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے

اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں
اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے

اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب
خاک پر اس کا امیں آب رواں ہوتا ہے

سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے

ساتھ رہ کر بھی یہ اک دوسرے سے ڈرتے ہیں
ایک بستی میں الگ سب کا مکاں ہوتا ہے

کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملالؔ
جس پہ ہونے کا کوئی راز عیاں ہوتا ہے