خود کو پا بستۂ زنجیر کیے جا چپ چاپ
خواب شرمندۂ تعبیر کیے جا چپ چاپ
خامۂ رنج و الم سے رخ کم مائیگی پر
نصرت جاوداں تحریر کیے جا چپ چاپ
یہ عمل باعث تسکین جنوں بھی ہوگا
جذبۂ عشق کی تعمیر کیے جا چپ چاپ
غم دوراں کی اذیت بھی تو دل سہتا ہے
غم جاناں کو بھی جاگیر کیے جا چپ چاپ
زخم گہرے تو بضد شوق مرے کرتا رہا
اس مسیحائی کی تدبیر کیے جا چپ چاپ
مقصد زندگی کھلتا ہی چلا جائے گا
اپنے دل میں اسے تصویر کیے جا چپ چاپ
شاعری سے ہے خیالؔ اس کو شغف شعروں میں
اپنے جذبات کو تسخیر کیے جا چپ چاپ

غزل
خود کو پا بستۂ زنجیر کیے جا چپ چاپ
رفیق خیال