خود کو نظر کے سامنے لا کر غزل کہو
اس دل میں کوئی درد بٹھا کر غزل کہو
اب تک تو مے کدوں پہ ہی تم نے غزل کہی
ہونٹوں سے اب یہ جام ہٹا کر غزل کہو
محفل میں آج شمع جلانے کے دن گئے
تاریکیوں میں دل کو جلا کر غزل کہو
غزلیں بھی آدمی کی عبادت ہیں دوستو
اس عشق کی ندی میں نہا کر غزل کہو
رہ تو لئے ہو اتنے دنوں چاندنی کے ساتھ
اب زندگی کی دھوپ میں آ کر غزل کہو
کوئی تمہارے دل میں نہ اترے تو اے کنورؔ
تم ہی کسی کے دل میں سما کر غزل کہو
غزل
خود کو نظر کے سامنے لا کر غزل کہو
کنور بے چین

